گناہوں کو چھوڑ دینے کی کوشش کرنا ولایت کا پہلا دروازہ ہے‘ اس وقت معاشرہ گناہوں کی آگ کی لپیٹ میں ہے جسے بجھانے کی اشد ضرورت ہے‘ گناہ دراصل نارنفس ہے ’’خواہش کی آگ‘‘ جب تک خواہش نفس سے چھٹکارا نہیں ملتا‘ اس وقت تک نور خدا قلب میں جاگزیں نہیں ہوتا۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ جیسے عارف اسے یوں بیان کرتے ہیں ’’نار شہوت چہ کشید؟ نور خدا
نار شہوت یعنی گناہ کے تقاضے کی آگ کون بجھا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب اسی مصرعے کے دو لفظوں میں ’’نورخدا‘‘ کہہ کردیا ہے‘ یہ نور یقین کی قوت سے حاصل ہوا کرتا ہے اور یقین کی یہ قوت اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑ کر ہی حاصل ہوتی ہے اس جوڑ کیلئے سب سے اہم چیز ذکرالٰہی ہے۔
پرہیزگاری یا بدکاری کی ابتداء خیالات قلب سے ہوتی ہے‘ پرہیزگاری کا دوسرا نام تقویٰ ہے اور تقویٰ اس بات کا نام نہیں کہ کبھی گناہ ہی سرزد نہ ہو یہ تو انبیاء کرام علیہم السلام کی شان ہے‘ ولی وہ ہے جو گناہ چھوڑنے میں لگا ہوا ہے۔
ایک اللہ والے فرماتے ہیں: تقویٰ بہت آسان ہے جیسے اگر وضو ٹوٹ جائے تو دوبارہ وضو کرلیتے ہیں اسی طرح اگر تقویٰ ٹوٹ جائے یعنی گناہ ہوجائے تو اللہ سے معافی مانگ لو تو آپ پھر متقی بن سکتے ہیں لیکن یہ معافی دل سے ہو کہ اے اللہ! آئندہ میں آپ کو ناراض نہیں کروں گا۔ اگر ہزار بار عہد ٹوٹے تو پھر اللہ کی طرف رجوع کرو اور پھر عہد کرو۔
حدیث قدسی کامفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرا بندہ بار بار عہد توڑ کے میرے پاس آتا ہے‘ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم وہ جتنی بار میرے پاس آئے گا میں اسے معاف کروں گا کیونکہ اس کا بار بار میری طرف لوٹنا ثابت کرتا ہے کہ اسے میری پکڑ کا خوف ہے اسی لیے وہ میری جانب لوٹتا ہے تو میں اسے اپنی رحمت سے محروم کیوں کروں؟
مولانا جلال الدین رومی نے بار بار عہد ٹوٹنے کی کیفیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں
عہد ماہ شکست صد بار و ہزار
عہد توں چوں کوہ ثابت برقرار
’’ہمارا عہد ہزاروں بار ٹوٹتا ہے جبکہ (اے خدا) تیرا عہد تو پہاڑ کی طرح قائم ہے‘‘
بندے سے گناہ اس وقت سرزد ہوتا ہے جب شہوت عقل پر غالب آجاتی ہے‘ جب عقل سے شہوت کا غلبہ و پردہ دور ہوتا ہے تو اچھی سوچ پیدا ہوتی ہے‘ ندامت و پچھتاوے کا احساس ہوتا ہے اگر اس مقام پر بندہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ دے اور اپنے اللہ سے گناہ چھوڑنے کا وعدہ کرلے تو اس خوش نصیب بندے پر تین خصوصی عنایات ہوجاتی ہیں۔
پہلی عنایت اس پر یہ کی جاتی ہے کہ فرشتے کو اس گناہ کے اندراج سے ہی روک دیا جاتا ہے وہ گناہ نہیں لکھتا۔ دوسری عنایت یہ کی جاتی ہے کہ جسم کے جس عضو نے گناہ کا ارتکاب کیا ہوا ہوتا ہے اس عضو کو وہ گناہ بھلا دیا جاتا ہے اور تیسری عنایت یہ کی جاتی ہے کہ زمین کے جس حصے پر اس نے گناہ کیا ہوتا ہے اس قطہ ارض کو بھی وہ گناہ بھلا دیا جاتا ہے۔ یعنی قیامت کے دن اس کے گناہ کا گواہ کوئی نہ ہوگا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی عنایات کے باوجود انسان توبہ پر آمادہ کیوں نہیں ہوتا؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ شیطان انسان کو یہ باور کراتا ہے کہ چونکہ تو اس گناہ کو چھوڑ نہیں سکتا تو تیری توبہ کس کام کی؟ یہ شیطان کا اتنا بڑا کامیاب وار ہے کہ اس سے وہی بچ سکتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوجائے۔
ایسا خیال شیطان کا دھوکہ اور فریب ہے کیونکہ تجھے کیسے معلوم ہوگیا کہ توبہ کرلینے کے بعد ضرور تجھ سے گناہ ہوگا۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ توبہ کے بعد موت آجائے اور گناہ کا موقع ہی نہ ملے باقی یہ وہم کہ شاید گناہ ہوجائے تو اس وہم کا اعتبار نہیں تجھ پر صرف یہ لازم ہے کہ توبہ کے وقت آئندہ گناہ چھوڑنے کا پختہ ارادہ ہو‘ باقی اس ارادے پر تمہیں استقامت دینا تو یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے‘ اگر اس ارادے پر تم قائم رہے تو توبہ کا مقصد بھی تو یہی ہے اگر خدانخواستہ تم ارادے پر قائم نہ بھی رہ سکے تو بھی گزشتہ کیا ہوا گناہ تو معاف ہوگیا ناں! گزشتہ گناہ کے عذاب سے تو نجات مل گئی‘ توبہ کے بعد اگر گناہ ہوا تو بس وہی ایک گناہ نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔ کیا گزشتہ گناہ کا معاف ہونا کوئی کم فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو گناہ چھوڑنےا ور سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں